(حصّہ دوم) تجزیۂ مقالہ: ”متبادل بیانیہ اصل بیانیے کی روشنی میں“ از محمد زاہد صدیق مغل صاحب، الشّریعہ

 

(غامدی صاحب کے "جوابی بیانیہ” کی تردید میں جناب محمد زاہد صدیق مغل صاحب کے ماہنامہ الشّریعہ شمارہ مئی 2015 میں بیان کردہ اعتراضات کا جواب )

محمد زاہد صدیق مغل صاحب دین اسلام پر تدبر کی نگاہ رکھنے والے ایک بالغ النظر دانشور ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور مدرِّس ہیں اور ان دنوں NUST اسلام آباد کے شعبۂ اکنامکس میں معاون پروفیسر ہیں۔ انہوں نے غامدی صاحب کے جوابی بیانیہ کے پہلے دو نکات پر اپنے مفصل اعتراضات و سوالات دو اقساط میں شائع کر
دیے ہیں، جس کی پہلی قسط اپریل کے شمارہ میں چھپی تھی اور اس پر میرا تبصرہ یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسری قسط مئی کے شمارے میں چھپی ہے، جس پر اس مضمون میں تبصرے کا ارادہ ہے۔ میرے نزدیک ان جیسے ذہین لوگوں کی اس بیانیے کی بحث میں شرکت خوش آئند اور عقدہ کشائی کو سود مند ہو گی۔

میری عادت ہے کہ جس مضمون پر تبصرہ مقصود ہو اس میں اٹھائے گئے اعتراضات کا خلاصہ کر کے علیحدہ علیحدہ سوالات میں تقسیم کر کے مرتب کر دیتا ہوں تا کہ کوئی اہم اعتراض چھوٹنے نہ پائے۔ تاہم، یہ مضمون چونکہ الشریعہ کی ویب سائٹ پر صرف تصویری صورت میں دستیاب ہے اور میں عبارات "copy/paste” نہیں کر سکا، اس لیے مجھے اعتراضات بھی خود سے ہی تحریر کرنے پڑتے۔ اور میں اتنا وقت نہیں نکال سکا۔ اس لیے متبادل طور پر میں مضمون کو تصویری ٹکڑوں کی صورت میں ہر منفرد اعتراض/سوال کی جگہ پیش کر رہا ہوں۔ پورے مضمون کو میں نے کس طرح سوالات میں تقسیم کیا ہے وہ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

محمد زاہد صدیق مغل صاحب(متبادل بیانیہ اصل بیانیے کی روشنی میں ،جلد ۲۶ – شمارہ ۵ – مئی ۲۰۱۵ء):

میرا تبصرہ:

i۔(سوال دیکھیے) صاحبِ مضمون نے حامد کمال الدین صاحب کا اقتباس نقل فرمایا ہے۔ ویسے تو میں نے حامد صاحب کے ان اعتراضات کے حامل شمارۂ ایقاظ کا تفصیلی تجزیہ اپنے اِس مقالے میں پیش کر دیا ہے، تاہم یہاں بھی نکات کی مناسبت سے چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔ پہلی گزارش: یہ دعوٰی اصول میں بالکل درست ہے کہ "نیشن سٹیٹ کا فارمیٹ بدلنا کوئی دین شکنی نہیں ہے” اور نہ ہی غامدی صاحب نے کبھی اسے دین شکنی کہا ہے۔ تاہم، اس کے اطلاق پر چند کلمات عرض کرنے سے پہلے جو دعوٰی اس کے مقابل میں غامدی صاحب کے بیانیے سے اخذ کیا جا سکتا ہے وہ بھی دہرانا مناسب معلوم پڑتا ہے کہ "نیشن سٹیٹ کا فارمیٹ بدلنا کوئی دین کا حکم بھی نہیں ہے”۔ اب رہی بات اس کے اطلاق کی، تو معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہم کوئی ریاست ابھی بنانے جا رہے ہیں اور اس کے بننے سے پہلے یہ بحث کر رہے ہیں، کیونکہ اس صورت میں تو متعدد زاویوں سے اس بحث میں خامہ فرسائی کرنا شائید میری بھی دلچسپی کا باعث ہوتا ۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ ایک ریاست وجود پذیر ہو چکی۔ چنانچہ فی الحال موضوعِ بحث یہ ہے کہ کیا ہماری موجودہ نیشن سٹیٹ کا فارمیٹ اکثریت کے زور پر بدلنا "مؤثر بہ زمانۂ ماضی” (ex post facto) انداز میں، عقلاً و قانوناً انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے، ممکن ہے کہ نہیں؟ غامدی صاحب اس پر اپنا مؤقف دے چکے ہیں جو انصاف کے بالکل مطابق معلوم پڑتا ہے کہ اب یکطرفہ طور پر ایسا کرنا استبداد اور تحکم ہو گا۔ تاہم، اگر یہ نا انصافی نہیں ہے تو صاحبِ مضمون سے التماس ہے کہ میرے جیسے پڑھے لکھے نوجوانوں کو دلائل سے یہ باور کرائیں کہ یہ نا انصافی کیوں نہیں ہے۔ میں اُنہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ یہ ثابت کر دیں تو نہ مجھے اور نہ ہی غامدی صاحب کو کوئی شوق ہے کہ اپنے وطن سے شریعت کے حلقۂ اثر کو کم کرنا ہمیں بھاتا ہو۔ ہاں مگر نا انصافی۔۔۔۔تو اس کی تو ادنٰی آمیزش بھی ہم شریعت کی رُو سے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری گزارش: جہاں تک مسلمانوں کو غاصب گرداننے کا معاملہ ہے اور اصل بات کے بہت پیچھے تک جانے کا تو یہ ایک ایسی بحث کی طرف رخ موڑنے کی کوشش معلوم پڑتی ہے جس کا شریعت میں حلال و حرام یا مکروہ و مندوب کے تعین سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کا عمل 14 صدیوں میں کیا رہا اور شریعت کو کیا مطلوب تھا ،یہ دونوں خود مختار حقیقتیں ہیں اور دونوں کا ایک ہونا کوئی عقلی لوازمہ نہیں۔ اگر قرآن کو جمہوری نظام پر اصرار ہے اور مسلمانوں نے خلفاءِ راشدین کے بعد اس کے بجائے بادشاہت کو اپنا نظام بنا لیا، تو اب ہمیں شریعت کا مطالبہ واضح کرنے کے لیے مسلمانوں کے اس دورِ بادشاہت میں اختیار کیے گئے رویّے اور اس کے محرکات پر بحث کی کوئی منطقی حاجت نہیں۔ مگر اصل میں ایسی باتیں چونکہ قارئین میں کسی مؤقف کی حامل شخصیت کے خلاف تعصب اور نفرت پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں اس لیے میں اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ اگر صاحبِ مضمون کا بھی ارادہ کچھ ایسا ہی ہے تو انہیں اس طرح کے دلائل کے پیچھے چھپنے کا موقع نہ دیا جائے۔ نہ غامدی صاحب کا مؤقف BJP کے زاویۂ مطالعۂ تاریخ سے ملتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی فتوحات کو ظلم گردانتا ہے۔ مسلمانوں نے جس زمانے میں یہ فتوحات کیں اس میں ان کے مقابل میں استبدادی حکومتیں ہی تھیں۔ جب مقابل میں استبداد ہو تو جنگ کے علاوہ کوئی صورت رفعِ تنازعہ کے لیے باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان فتوحات کے خلاف اُس دور کے اجتماعی انسانی ضمیر نے کبھی اصولاً غیر اخلاقی ہونے کا فتوٰی نہیں دیا۔ اِس دور میں بھی جن لوگوں نے اس پر کسی قسم کا کوئی اعتراض وارد کیا ہے انہوں نے دراصل موجودہ دور کی سیاسی اخلاقیات کو ماضی میں بھی مؤثر ماننے کی خطا کی ہے، جس کا ابطال مسلم و غیر مسلم اہل علم متعدد زاویوں سے کر چکے ہیں۔ چنانچہ صاحبِ مضمون سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ دین کے مطالبات کی جانچ پڑتال کے لیے تاریخی واقعات کا سہارا لینا خلطِ مبحث کے مترادف ہے۔ ہمارے دین میں مطالبات ایسی شانِ وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں کہ اُن کی بحث شریعت کے ماخذوں سے شروع ہو کر انہی پر تمام ہو جانی چاہیے۔ تیسری گزارش: جہاں تک بات ہے سیاسی و سماجی برتری کو فتح کے مقابل میں کہیں زیادہ نرم تر عمل سمجھنا اور نیشن سٹیٹ کے فارمیٹ میں کچھ فرق آنے کو شریعت کی خلاف ورزی نہ سمجھنا، تو توضیح کی خاطر اوپر کی گزارشات پر کچھ مزید اضافہ کیے دیتا ہوں۔ پہلے تو میری اور قارئین کی تفہیم کو یہ فرما دیجیے کہ آپ خلافِ عدل ہونے کو خلافِ شریعت مانتے ہیں کہ نہیں؟ کیونکہ میں تو جب بحث کرتا ہوں تو اِن دونوں کو لازم و ملزوم مانتے ہوئے کرتا ہوں۔ اس لیے نیشن سٹیٹ کے فارمیٹ میں یکطرفہ تبدیلی کو چونکہ خلافِ عدل سمجھتا ہوں اس لیے شریعت کی خلاف ورزی بھی گردانتا ہوں۔ چنانچہ ناقدِ فاضل سے پھر التماس کرتا ہوں کہ اس کا خلافِ عدل ہونا مفقود دکھا دیجیے، یہ آپ سے آپ خلافِ شریعت بھی نہیں رہے گا۔ رہی بات نرم تر عمل کی، تو اس ضمن میں گزارش ہے کہ یہ بحث زیادہ ناانصافی اور کم ناانصافی کی نہیں ہے کہ میں آپ کے اس دعوے کی تائید و تنکیر کروں۔ یہ بحث تو اصول میں ناانصافی کی ہو رہی ہے چاہے وہ زیادہ ہو یا کسی اور طرح کی بڑی ناانصافی سے کم تر۔ چنانچہ اس دور میں جس طرح کسی ملک کو فتح کر کے اس کے عوام کو اپنے دینی تصورات کا پابند کرنا ظلم شمار ہوتا ہے، اسی طرح سیاسی و سماجی اکثریت کے زور پر بھی ایسا کرنا ظلم ہی شمار ہوتا ہے۔ یہی وہ ظلم تھا جس کو بھانپتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے حامی یعنی قائد اعظم نے آخر کار علیحدہ ملک کے مطالبے کا فیصلہ کیا۔ کیا طُرفہ تماشا ہے کہ ہم نے یہی کام اپنی اقلیتوں سے کر ڈالا۔ رہی بات قراردادِ مقاصد کی، تو اس پر غامدی صاحب کے اعتراض کو سمجھنے کی ایک موہوم سی کوشش تو کیجے۔ قراردادِ مقاصد کو مسلمانوں کے لیے خاص کر دیجیے، اقلیتوں کو اُس کے حلقۂ اثر سے باہر کر دیجیے، پھر چاہے تو جو مرضی اکثریت کی رائے سے اس میں شامل کر دیجیے، اس پر خلافِ عدل ہونے کا کوئی اعتراض غامدی صاحب کی جانب سے نہ آئے گا۔

ii۔( سوال دیکھیے) قارئین سے گزارش ہے کہ اِن اقتباسات کو غور سے پڑھیے اور پھر فیصلہ کیجیے: کیا اِن اقتباسات میں اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے شریعت کے ماخذوں سے کوئی دلیل پیش کی گئی ہے؛ یا پھر دنیا کے سیاسی حالات کے پیشِ نظر قراردادِ مقاصد کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے؟ اگر دوسری بات ہے، اور یقیناً دوسری ہی بات ہے، تو اس پر کسی کلام کی میں کوئی حاجت محسوس نہیں کرتا۔ کیونکہ چاہے میں اِن سے پوری طرح متفق ہوں یا جزوی طور پر، یا چاہے ان سب سے اختلاف رکھوں ،غامدی صاحب کے مؤقف پر یک سرِ موُ فرق نہیں پڑتا۔ مروجہ سیاسی حالات پر جو رائے صاحبِ مضمون نے پیش فرمائی ہے، ممکن ہے مجھے اس کا پورا احترام ہو، مگر اس سے شریعت میں مقصود و مطلوب ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اگر صاحبِ مضمون ان دلائل کی بنیاد پر ایسا سمجھتے ہیں کہ قراردادِ مقاصد واقعتاً ایک قانونی ضرورت ہے تو اس طرح کی کسی قرارداد کو اکثریت کی تائید سے نافذ کرا لینے میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ قباحت ہے تو بس اس میں کہ جبراً غیر مسلموں کو اس کا پابند کر دیا جائے۔

iii۔( سوال دیکھیے) اس سوال کا جواب گو کہ اس سے پہلے میں دے چکا ہوں جو یہاں دیکھا جا سکتا ہے، تاہم میں اسے یہاں بھی نقل کیے دیتا ہوں۔ جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے وہ اِس بات کے غماز ہیں کہ غامدی صاحب کے تصوّرِ دین ِ ریاست کو لادینیت (secularism) کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے۔ اور لادینی ریاستوں میں پیش آنے والے واقعات پر قیاس کر کے ان خدشات کو شدنی قرار دے دیا گیا ہے۔ خود غامدی صاحب اور میں بھی متعدد توضیحی مضامین میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کر چکے ہیں کہ جس تصور میں اجتماعی مذہبی ہدایات نہ صرف حکمرانوں کو تاکید کی جائیں بلکہ ان کی ذمہ داری قرار دیا جائے، اسے لا دینیت کے مترادف گرداننا کسی طرح روا نہیں۔ میری تمام ناقدین سے دردمندانہ گزارش ہے کہ ایک مرتبہ غامدی صاحب کے 10 کے 10 نکات کو تسلی اور تدبر سے سمجھیں اور انہیں اپنے ذہن میں سرایت کرنے دیں، اس کے بعد جیسی چاہیں صنف بندی کریں۔ مگر یقین جانیے کہ اگر تدبر سے اس کا مطالعہ کیا گیا تو پختہ اذہان لا محالہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ ایک مختلف صنف ہے جو خالص مذہبی ریاست اور لا دینی ریاست کے بین بین ہے۔ اور خالص مذہبی ریاست کے مقابل میں غامدی صاحب اِسے اس لیے پیش نہیں کر رہے کہ اُس کا ظہور وہ دنیا میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ بلکہ صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ اِس موجودہ ریاست کی مشترک ملکیت کی نوعیت، اور شریعت کا سکھلایا ہوا عدل و قسط، انہیں اِس اقرار پر مجبور کر رہا ہے کہ ایسا کرنا ناانصافی ہے۔ تاہم میری ناقدین سے گزارش ہے کہ وہ یہ فرما دیں کہ یہ ناانصافی نہیں ہے تو پھر اٹھ کھڑے ہوں خالص مذہبی ریاست بنانے کی خاطر، وہ بالکل حق بجانب ہوں گے۔ رہی بات اُن نتائج کی جو محترم صاحبِ مضمون نے دکھلائے ہیں، تو وہ واقع ہی نہیں ہوں گے۔ اسلام نے جتنے احکامات مسلمانوں کو کسی شعبۂ زندگی سے متعلق بھی دیے ہیں وہ ضرور لاگو ہو سکیں گے۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ غیر مسلموں کو اُن کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیمی نظام میں بھی مسلمانوں کا پورا حق ہو گا کہ جو مذہبی علوم بھی وہ بچوں کو پڑھانا چاہیں گے ضرور پڑھا سکیں گے۔ میں چونکہ اس موضوع پر ایک مستقل مضمون لکھ رہا ہوں اس لیے یہاں اسی اجمال پر اکتفا ہے۔ تفصیل انشآءاللہ اس دوسرے مضمون میں بیان کروں گا۔ کیونکہ مجھے اس چیز کا پورا احساس ہے کہ لوگوں کا کسی بھی نظریے کو پہلے سے معلوم اصناف میں سے کسی ایک پر محمول کرنے کا ذوق، اور غامدی صاحب سے ایک عمومی سوءِ ظن، اس مختلف صنف کے ادراک میں حائل ہو رہے ہیں۔

iv۔( سوال دیکھیے)یہ اعتراض اصل میں اس سوچ کی عکاسی پوری دیانت سے کر دیتا ہے جس کے تدارک کے لیے غامدی صاحب نے اس جوابی بیانیے میں ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق کو واضح کرنا مناسب جانا۔ صاحبِ مضمون جو یہ فرما رہے ہیں کہ علما نے بڑی محنت سے اس نظام کو چلانے والوں کے ارادوں کو قرآن و سنت کے کلے سے باندھنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت بنچ جیسی جو کامیابیاں حاصل کیں۔۔۔۔ہمارے اس مروجہ مذہبی بیانیے اور علما کے مؤقف کی جامع عکاسی کرتا ہے۔ اصل میں یہی وہ کامیابیوں کا تصور ہے جو اس مؤقف کے حاملین کی سادہ لوحی کو مبرہن کر دیتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پرانے پاپیوں کے علی الرغم، شب بھر میں مسجد بنا دینے سے انہیں کوئی عظیم کامیابیاں حاصل ہو گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی جیسی شقوں نے ہمارے آئین میں ہمیشہ کے لیے منافقت کی بنیاد ڈال دی ہے۔ کلے سے باندھنے کا یہ تصور اصل میں اس آمرانہ سوچ کا آئینہ دار ہے جس کے ہمارے علما گرویدہ ہیں۔ پس، ان کے نزدیک آج بھی مثالی نظام وہی ہے جو اس وقت سعودی عرب میں ہے۔ یعنی ایسی آمریت جس میں دین اور عدلیہ کا پورا نظام علما کے حوالے کر دیا جائے۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ ملک کے آئین و قوانین اصل میں لوگوں کی مجموعی علمی و عقلی و دینی کیفیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ جس طرح کوئی علمی و عقلی حقیقت ان پر خارج سے تھوپی نہیں جا سکتی اسی طرح کوئی دینی تعبیر یا شق بھی ان پر باہر سے چسپاں نہیں کی جا سکتی، اور اگر کر بھی دی جائے تو وہ نتیجہ خیز ہونے کی بجائے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ لوگ اسے عملاً قبول نہیں کرتے۔ اس دور میں ریاستوں پر حملے کر کے ان پر جمہوریت تھوپنے والے مغربی ممالک بھی یہی غلطی کر رہے ہیں۔ چنانچہ دینی قوانین کا فطری طریقہ بھی یہی ہے کہ جتنے لوگ مسلمان ہوں گے اتنے ہی وہ قوانین بھی اسلامی بنائیں گے۔ اور اگر اس ترتیب کو الٹ دیا جائے، یعنی قوانین تو عین اسلامی بنا ڈالے جائیں لیکن عوام و حکمران بے دین ہوں تو پھر وہ منافقت پیدا ہوتی ہے جو ہمارے وطن میں ظہور پذیر ہو چکی ہے۔ غامدی صاحب اسی لیے اس طریقہ کار کو غیر حکیمانہ کہتے ہیں۔ اور یہ باور کرا رہے ہیں کہ ایسا کوئی آئینی مسودہ تیار کرنا شرعی اعتبار سے اسی لیے ضروری بھی نہیں رکھا گیا۔ علما کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام سعی کا ہدف عوام کے دینداری کے معیار کو بلند کرنے کو بنائیں۔ کلے گاڑھنے اور لوگوں کو اس سے باندھنے کی جو مشق انہوں نے شروع کی تھی اس کے نتائج سے ہی کچھ سبق سیکھ لیں۔ رہی بات ناراض طبقے کی تو ان کو واپس لانے کے لیے ہی تو غامدی صاحب دین کے ماخذوں کی طرف مراجعت کی تلقین کر رہے ہیں۔ وہ یہی تو باور کرانا چاہتے ہیں کہ قرآن و سنت کے مطابق دینی تعلیمات کا ہدف افراد ہیں، نہ کہ ریاست اور اس کے ادارے۔ یہ جو الٹی ترتیب اِن مخلص و سادہ لوح مسلمانوں کو پڑھا دی گئی ہے اسی کی غلطی واضح کرنے کی جدوجہد تو وہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو یہ سب ناراض طبقے یہ جان لیں گے کہ ان کی سعی وجہد کا ہدف صرف اور صرف افراد ہیں، چاہے وہ عوام ہوں یا حاکم، اور حکمت سے دعوت اور وعظ و نصیحت ہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ریاست سے بغاوت میں وہ ہتھیار ہی کیوں اٹھائیں گے جب یہ یقین کر لیں گے کہ ایک خالص جمہوری معاشرہ ہی تو شریعت کو مطلوب ہے؟

v۔( سوال دیکھیے) اس نقطے پر کوئی سنجیدہ ردّ عمل دینا فی الحال میرے لیے ممکن نہیں۔ کیونکہ اگر یہ طنز واقعی اسی معنی میں ہے جس میں نظر آ رہا ہے تو پھر مجھے یہ ماننا پڑے گا کہ زاہد صاحب جیسے فاضل محقق کو جمہوری نظام میں آئین سازی یا آئینی ترامیم کے اجرا کے طریقہ کار کا علم نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے اعتراض سے تو ایسا لگتا ہے کہ جن تشریحاتِ اسلام کو ہمارے آئین میں ابتک حصہ ملا ہے اور جن کی تعریف میں وہ اور ہمارے باقی علما قلابے ملاتے نہیں تھکتے، وہ شائید جمہوری عمل سے نہیں ملا۔ کیا واقعی وہ یہ بات نہیں جانتے کہ الطاف حسین، نواز شریف، عمران خان و زرداری جیسے سیاستدان ہی تھے جنہوں نے ان تمام "تاریخی” شقوں کو آئین کا حصہ بنایا یا آئین کا حصہ رہنے دیا؟ بہر حال اختصاراً عرض ہے کہ آئین میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے معاملات کے بارے میں قانون سازی گو سیاستدان ہی کرتے ہیں ،مگر وہ یہ قانون سازی آسمان پر بیٹھ کر تنہائی میں نہیں کرتے اور نہ ہی ہر شعبے سے متعلق پورا علم ہی ان کے پاس ہوتا ہے۔ وہ تو ہر شعبے کے ماہرین کی آرا کو ہی بنیاد بناتے ہیں جیسا کہ آجتک کی منظور شدہ دینی شقوں کے معاملے میں ہوا ہے۔ چونکہ میں جمہوری نظام سے مکمل نا شناسائی کو صاحبِ مضمون کے حق میں فرض نہیں کر سکتا، اس لیے فی الحال جواب سے گریز ہی کروں گا۔

vi۔( سوال دیکھیے) بصد احترام، کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ اس الزامی سوال کا ہماری موجودہ بحث سے تعلق کیونکر ہے؟ کیا ہمیں مسلمانوں کے مذہبی فکر کی کوئی غلطی بیان کرنے کے لیے پہلے موجودہ زمانے کی اجنبی اقوام کے تمام جرائم اور مظالم کی ایک فہرست مرتب کرنا پڑے گی؟ یہ کونسا علمی طریقۂ استدلال ہے؟ عالمی اقوام کے خلاف جہاد تو بہت دور کی بات، "اپنوں” کی غلطی واضح کرنے کے پروسیس (process) میں تو اللہ تعالٰی خود اپنے دشمنوں پر حرفِ تنقید بھی بلند کرنے کے روا نہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کا پہلا رکوع ہی پڑھ کر دیکھ لیجیے ۔ یعنی یہ کس قسم کا علمی مکالمہ ہے کہ پہلے فلاں کی غلطی مانو تب ہماری پر بات ہو سکے گی! اور جہاں تک جہاد کی اصولی مشروعیت اور متبادل بیانیۂ جہاد جیسے دلائل کا تعلق ہے، تو ان پر تو مجھے شدید دکھ ہوا ہے۔ یعنی ایک طرف ناقدین کے اشکالات رفع کرنے کی مخلصانہ کوشش جاری ہے۔ ایسی کوشش کے لیے ناقدین کے متعلق بھی خوش گمانی رکھنا کہ وہ بھی پورے اخلاص سے کسی نقطے کو سمجھنا چاہ رہے ہیں ایک مجبوری ہوتی ہے، کیونکہ اس کے بغیر بحث کے لیے اپنے نفس کی تحریک بڑی گراں ہوتی ہے۔ مگر دوسری جانب سے ایسے اعتراض کا سامنے آنا کہ بھئی ہمیں اگر کینسر ہوا ہے اور چاہے ہم آپ کے بھائی بھی ہیں، مگر آپ اس شخص کا علاج کریں جو فلاں بستی میں کوسوں دُور بھی رہتا ہے اور آپکا اس سے کوئی رشتہ بھی نہیں اور ہوا بھی اس کو بس نزلہ ہے، تو اس طرح کے اعتراض کے بعد تو گفتگو کا سارا شوق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ بہر حال چونکہ یہ نقطہ ناقدِ فاضل نے اٹھا دیا ہے تو چلیے چاہ و نا چاہ اس کا بھی جواب پیشِ خدمت ہے۔ مغربی ممالک کی جمہوریتوں کو کب غامدی صاحب نے مثالی کہا ہے اور کب کہا ہے کہ ان میں حلقہ ہائے اصلاح نہیں؟ بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے محل میں ان پر نقد بھی غامدی صاحب کرتے رہتے ہیں۔ مگر جہاں تک اس موضوع پر پورا بیانیہ مرتب کر دینے کی بات ہے تو کیا صاحبِ مضمون یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اپنی امت کو درپیش زندگی اور موت کی کشمکش کو چھوڑو اور غیر مسلم اقوام کو درپیش "جنرل ول” کو نہ بدل سکنے جیسے کہیں ادنٰی مسئلے پر توجہ مرکوز کر دو؟ تو معاف کیجیے گا، یہ ہمارے لیے ممکن نہیں۔ ہمارے لیے اولیت ہمارے دین کی تعبیرات اور اس کے حاملین کے مسائل ہیں۔ جب ہم ان سے فارغ ہو لیں گے تو شائید اس طرف بھی توجہ کريں۔ اور پھر جہاد کی مشروعیت۔۔۔۔تو نہ جانے ہمارے ذی شعور اہلِ علم کے یہاں ہر معاملے کا نقطۂ آغاز جہاد ہی کیوں ہوتا ہے۔ کیا دعوت اور بحث و مباحثوں سے انہیں کسی چیز کا قائل کر لینا مسدود ہو گیا ہے؟ میرا تجربہ تو یہ ہے کہ مغرب کے غیر مسلم اس دور کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ علمی و عقلی دلائل سے قائل ہونے والے لوگ ہیں۔ تو جب ہم ان کے دلائل سے متاثر ہونے کی روش سے مایوس ہو جائیں گے، اور پھر ان کے ساتھ حربی طاقت کے توازن کے قابل ہو جائیں گے، اور اپنے مسائل سے فارغ ہو لیں گے، تو پھر ضرور اس مشروعیت پر اپنا تبصرہ بھی دے دیں گے۔

vii۔( سوال دیکھیے) جو آیت صاحبِ مضمون نے پیش فرمائی ہے اور اس کا جو ترجمہ "خلیفہ” کے لفظ کو جوں کا توں رکھ کر نذرِ تحریر فرمایا ہے اس کا مفصل جواب غامدی صاحب اپنے ایک توضیحی مقالے میں دے چکے ہیں۔ جس میں انہوں نے واضح فرمایا تھا کہ یہ لفظ قرآن و حدیث میں ہر جگہ اپنے لغوی مفاہیم یعنی نیابت، جانشینی اور اقتدار میں سے کسی ایک میں ہی استعمال ہوا ہے، نہ کہ اصطلاح کی حیثیت سے۔ میرا خیال یہی ہے کہ صاحبِ مضمون کی نظر سے وہ نہ گزرا ہو گا ورنہ ایک ایسی دلیل وہ کبھی نہ پیش فرماتے جس کی وضاحت اس سے پہلے ہو چکی۔ وہ یہ مقالہ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ رہی بات اس اعتراض کی کہ محولہ آیت میں بیان کردہ خلافت کا تصور بھی خدا کو مطلوب ہے کہ نہیں؟ تو اس کا سادہ جواب ہے کہ بالکل مطلوب ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ خلافت کے تصور سے ناقدِ فاضل کیا مراد لے بیٹھیں گے اس لیے وضاحت بھی کر دیتا ہوں۔ ہر مسلمان حکمران کو یہی تلقین کی جائے گی کہ لوگوں کے درمیان حق کی بنیاد پر فیصلے کريں اور خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ اس سے زیادہ کوئی بات تو اس آیت سے برآمد نہیں کی جا سکتی۔ اور اگر کی جا سکتی ہے تو ضرور مطلع فرمائیں!

viii۔( سوال دیکھیے) اس دلیل پر میں اپنی تمام تر کوشش کے باوجود محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اس لیے اس پر میری معذرت پہلے سے قبول فرمائیں۔ اس "ھم” سے جو "عالمی جمہوریت” یا کم از کم "ایک کنفیڈریشن ٹائپ کسی شے کا قیام” صاحبِ مضمون نے برآمد فرمایا ہے اس پر حیرت کے اظہار کے لیے میر ے پاس مناسب الفاظ نہیں۔ خیر مجھے ہر چیز کا علمی تجزیہ کرنا ہے اس لیے جواب پیشِ خدمت ہے۔ اس ھم میں نہ عالمی جمہوریت چھپی بیٹھی ہے اور نہ کنفیڈریشن۔ اس ھم کا اشارہ مسلمانوں کی طرف بغیر کسی سیاسی وحدت و تقسیم کی مراد کے ہے۔ ہاں اقتدار اس میں اور اس سلسلہ کی باقی آیات میں لازماً شرط ہے جو کہ بالکل واضح ہے، اور میرا نہیں خیال کہ صاحبِ مضمون کو بھی اس سے انکار ہے۔ یعنی چاہے مسلمانوں کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار پوری دنیا میں ہو، یا ایک خطے میں، کسی ایک ملک میں ہو یا متعدد ملکوں میں، یا کسی اور جغرافیائی یا معاشرتی تقسیم کے ساتھ، انہیں اپنے اپنے حلقۂ اقتدار میں جو نظام بھی بنانا ہے وہ باہمی مشاورت سے ہی بنانا ہے۔ یہ آیت ایک اصول دے رہی ہے اور اصول اسی طرح تقسیم و تحدید سے بلند ہو کر ہی دیے جاتے ہیں۔ اس آیت میں اصل اہم نکتہ "امر” سے متعلق تھا نہ کہ "ھم” سے۔ "امر” کی چونکہ کوئی درجہ بندی نہیں کی گئی اس لیے اس سے یہ نقطہ برآمد کرنا کہ اس میں ہر طرح کا نظام اور قانون سازی شامل سمجھی جانی چاہیے، زبان و بیان کے معیار پر پورا اترتا ہے؛ اور میرے خیال میں صاحبِ مضمون نے بھی اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں کیا۔ "ھم” تو فقط ان مسلمانوں کی طرف اشارے کے لیے آیا ہے جو اس حلقۂ اقتدار میں آباد ہیں۔ صاحبِ مضمون ایک کام کریں۔ عربی کو چھوڑیں ۔ وہ اس آیت کا اردو ترجمہ کسی اردو زبان کے ماہر کو دکھا لیں۔ اور اس سے پوچھ لیں کہ اس سے عالمی جمہوریت یا کنفیڈریشن مراد ہے کہ نہیں! اور پھر میری یہ طالبعلمانہ خواہش بھی پوری فرما کر ممنونِ احسان فرمائیں کہ یہ بتا دیں کہ اگر اللہ تعالٰی نے عالمی جمہوریت اور کنفیڈریشن مراد نہ لینا ہوتی تو الفاظ کیا ہونے چاہیے تھے؟ ممکن ہے کہ قارئین کو یہ بحث کچھ ثقیل لگی ہو اس لیےان کی تفہیم کے لیے یہ مثال پیشِ خدمت ہے۔ فرض کریں کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ "غریبوں کا مال ان کی باہمی رضامندی سے خرچ ہونا چاہیے”۔ اس سے غامدی صاحب یہ دلیل پکڑ رہے ہیں کہ کیونکہ "مال "کو غریبوں کی طرف اضافت کے علاوہ کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا گیا اس لیے اس میں ہر طرح کا مال شامل ہو گا۔ اور زاہد صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ اس میں "ان” کا اشارہ "تمام غریبوں” کی طرف ہے نہ کہ پاکستان، ایران اور فلسطین کے غریبوں کی طرف الگ الگ۔۔۔۔۔اس لیے یہ جملہ تقاضا کر رہا ہے کہ تمام دنیا کے غریب کسی ایک ہی مالیاتی ادارے کے نیچے لے آئے جائیں ، یا کم از کم ایک کنفیڈریشن کے۔ فیصلہ خود فرما لیجیے۔

ix۔( سوال دیکھیے) یہ واضح ہے کہ صاحبِ مضمون نے کوئی نص ایسی سامنے نہیں رکھی جس میں مسلمانوں کو کوئی ایک سیاسی و انتظامی وحدت بننے کا حکم دیا گیا ہو۔ وہ تو یہ فرما رہے ہیں کہ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو اخوت و مودّت و ہمدردی کی جو نصیحتیں کی گئی ہیں، اور مسلمانوں کو اپنی "بنیادی شناخت” کی طرف جو توجہ دلائی گئی ہے، کیا وہ مسلمانوں سے کوئی سیاسی تقاضا نہیں کرتی؟ تو اس سوال میں ایک تو اعتراف ہے اور وہ یہ کہ قرآن و حدیث میں کوئی صریح حکم ایسا نہیں جو عالمگیر سیاسی وحدت کا تقاضا کرتا ہو؛ تو یہ تو غامدی صاحب کے مؤقف کی خاموش تائید ہوئی۔ اور رہی دوسری بات تو اس کا سادہ جواب ہے کہ، نہیں! محولہ ترغیبات مسلمانوں سے اس نوعیت کا کوئی سیاسی تقاضا نہیں کرتی جو محترم ناقد مراد لے رہے ہیں! جس طرح ہماری شریعت رحمی رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کی مسلسل تلقین کے باوجود ان سے "مشترک خاندانی نظام” (joint family system) کا تمدنی تقاضا نہیں کرتی، اسی طرح مسلمانوں کو "توادھم و تراحمہم” اور اخوت و محبت و اتحاد کی تلقین کے باوجود "عالمگیر یکجاتی سلطنت” (global unified empire) کا تقاضا بھی نہیں کرتی۔ ہماری شریعت یہی چاہتی ہے کہ وہ ہر زمانے اور معاشرے میں لاگو ہو سکے۔ اس کا دامن اتنا بسیط ہے اور احکامات میں ایسی عالمگیریت ہے کہ چاہے کوئی زمان ہو یا کوئی مکان، وہ اپنے مطالبات پورے عملی پن (practicality) کے ساتھ واضح کر دیتی ہے۔ اور خاص طور پر وہ چیزیں جن میں ارتقا ہی اصل ہو، ان کے بارے میں تو ایسا آفاقی انداز اپناتی ہے کہ اس دور کے اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی اسی ایک انداز سے یہ باور کر لیتے ہیں کہ یہ دین لازماً اُس علیم و خبیر ہستی کا ہی ہو سکتا ہے جو 14 صدیاں پہلے اپنے احکامات کو ایسے الفاظ میں بیان کر دیتی ہے کہ لگتا ہے وہ آج نازل ہوئے ہیں۔ اسی لیے ہر دور کے تمدنی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی حالات و ضروریات کے تحت کوئی سی صورت اختیار کر لینے کی کوئی ممانعت نہیں کرتی۔ اور اگر کرتی ہے، تو براہِ مہربانی کوئی نص قرآن و حدیث سے پیش فرما کر ہماری تصحیح کر دیجیے۔

اختتامیہ: محترم محمد زاہد صدیق مغل صاحب سے التماس ہے کہ اگر کہیں کوئی لب و لہجہ ادب کے منافی پائیں تو اسے نادانستہ سمجھیں اور اس پر میری معذرت قبول فرمائیں۔ مگر جو جوابات معقول لگیں ان کو تسلیم کریں اور جو غلط پائیں ان پر ضرور مطلع فرمائیں۔

تبصرہ کریں